EN हिंदी
سر خیال میں جب بھول بھی گئی کہ میں ہوں | شیح شیری
sar-e-KHayal main jab bhul bhi gai ki main hun

غزل

سر خیال میں جب بھول بھی گئی کہ میں ہوں

صائمہ اسما

;

سر خیال میں جب بھول بھی گئی کہ میں ہوں
اچانک ایک عجب بات یہ سنی کہ میں ہوں

تلاش کر کے مجھے لوٹنے کو تھا کوئی
مرے وجود کی خوشبو پکار اٹھی کہ میں ہوں

کہ تیرگی میں پلی آنکھ کو یقیں آ جائے
ذرا بلند ہو آہنگ روشنی کہ میں ہوں

وہ خالی جان کے گھر لوٹنے کو آیا تھا
مرے عدو کو خبر آج ہو گئی کہ میں ہوں

نہ جانے کیسی نگاہوں سے موت نے دیکھا
ہوئی ہے نیند سے بیدار زندگی کہ میں ہوں

لپیٹ دو صف ماتم اٹھا رکھو نوحے
پکارتا سر محشر سنا کوئی کہ میں ہوں