EN हिंदी
نقش جب زخم بنا زخم بھی ناسور ہوا | شیح شیری
naqsh jab zaKHm bana zaKHm bhi nasur hua

غزل

نقش جب زخم بنا زخم بھی ناسور ہوا

صائمہ اسما

;

نقش جب زخم بنا زخم بھی ناسور ہوا
جا کے تب کوئی مسیحائی پہ مجبور ہوا

پر پرواز بھی تب تک نہ کھلے تھے جب تک
بیٹھ جانے کی تھکن سے نہ بدن چور ہوا

دن کی چھلنی میں ترا لمحۂ فرصت چھانے
دل تو لگتا ہے اسی کام پہ مامور ہوا

دامن دوست ہے اک ذہن کے پردوں میں کہیں
جس قدر ہاتھ بڑھایا ہے سو وہ دور ہوا

کبھی بے سمت نہ ہونے کی دعا مانگی تھی
کثرت سمت سے رستہ مرا معمور ہوا

چیخنا چاہتی ہوں چیخ نہیں پاتی ہوں
خواب ہوتا تھا حقیقت کو بھی منظور ہوا