درد اتنا بھی نہیں ہے کہ چھپا بھی نہ سکوں
بوجھ ایسا بھی نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں
یوں سمائی ہے ان آنکھوں میں بتا بھی نہ سکوں
دل کی دیوار پہ تصویر سجا بھی نہ سکوں
خیریت پوچھتے رہتے ہو مگر حال یہ ہے
اس کی آواز میں آواز ملا بھی نہ سکوں
آ مرے پاس ذرا سن کے بتا کہتی ہے کیا
دل کی دھڑکن جو سر عام سنا بھی نہ سکوں
جبر دیکھا تھا مگر ایسا نہیں دیکھا تھا
ایسے پہرے ہیں کہ پلکیں میں اٹھا بھی نہ سکوں
انگلیاں چاک ہوا کرتی تھیں پہلے ساجدؔ
اب گئے ہاتھ کہ میں ہاتھ ملا بھی نہ سکوں
غزل
درد اتنا بھی نہیں ہے کہ چھپا بھی نہ سکوں
ساجد حمید