EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہم بھی اسی کے ساتھ گئے ہوش سے سعیدؔ
لمحہ جو قید وقت سے باہر چلا گیا

سعید احمد




جل تھل کا خواب تھا کہ کنارے ڈبو گیا
تنہا کنول بھی جھیل سے باہر نکل پڑا

سعید احمد




جو ترے خطۂ بے آب کی خواہش نہ بنا
کلبلاتا ہے وہ دریا کسی کہسار میں گم

سعید احمد




جو ترے خطۂ بے آب کی خواہش نہ بنا
کلبلاتا ہے وہ دریا کسی کہسار میں گم

سعید احمد




خشک پتوں میں کسی یاد کا شعلہ ہے سعیدؔ
میں بجھاتا ہوں مگر آگ بھڑک جاتی ہے

سعید احمد




کچھ لوگ ابتدائے رفاقت سے قبل ہی
آئندہ کے ہر ایک گزشتہ تک آ گئے

سعید احمد




مرا وجود حوالہ ترا ہوا آخر
تو کھا گیا نا مجھے تو مرے سوال قدیم

سعید احمد