EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کچھ لوگ تھے سفر میں مگر ہم زباں نہ تھے
ہے لطف گفتگو کا جو اپنی زباں میں ہو

سعید نقوی




میں اپنے سارے سوالوں کے جانتا ہوں جواب
مرا سوال مرے ذہن کی شرارت ہے

سعید نقوی




میں اپنے سارے سوالوں کے جانتا ہوں جواب
مرا سوال مرے ذہن کی شرارت ہے

سعید نقوی




میں دور دور سے خود کو اٹھا کے لاتا رہا
کہ ٹوٹ جاؤں تو پھر دور تک بکھرتا ہوں

سعید نقوی




تو میری تشنہ لبی پر سوال کرتا ہے
سمندروں پہ بنایا تھا اپنا گھر میں نے

سعید نقوی




تو میری تشنہ لبی پر سوال کرتا ہے
سمندروں پہ بنایا تھا اپنا گھر میں نے

سعید نقوی




یہ خود نوشت تو مجھ کو ادھوری لگتی ہے
جو ہو سکے تو نیا انتساب مانگوں میں

سعید نقوی