پتھر کو پوجتے تھے کہ پتھر پگھل پڑا
پل بھر میں پھر چٹان سے چشمہ ابل پڑا
جل تھل کا خواب تھا کہ کنارے ڈبو گیا
تنہا کنول بھی جھیل سے باہر نکل پڑا
آئینے کے وصال سے روشن ہوا چراغ
پر لو سے اس چراغ کی آئینہ جل پڑا
گزرا گماں سے خط فراموشی یقیں
اور آئنے میں سلسلہٗ عکس چل پڑا
مت پوچھیے کہ کیا تھی صدا وہ فقیر کی
کہیے سکوت شہر میں کیسا خلل پڑا
باقی رہوں گا یا نہیں سوچا نہیں سعیدؔ
اپنے مدار سے یوں ہی اک دن نکل پڑا
غزل
پتھر کو پوجتے تھے کہ پتھر پگھل پڑا
سعید احمد