EN हिंदी
ہونے کی اک جھلک سی دکھا کر چلا گیا | شیح شیری
hone ki ek jhalak si dikha kar chala gaya

غزل

ہونے کی اک جھلک سی دکھا کر چلا گیا

سعید احمد

;

ہونے کی اک جھلک سی دکھا کر چلا گیا
کھولی تھی ہم نے آنکھ کہ منظر چلا گیا

کیا خود کو دیکھنے کا عجب شوق تھا کہ وہ
چپ چاپ اٹھ کے سوئے سمندر چلا گیا

کن دائروں میں گھومتے ہیں اب خبر نہیں
کیوں ہاتھ سے وہ چاک سا چکر چلا گیا

پہلے قدم پہ ختم ہوا قصۂ جنوں
پہلا قدم ہی دشت برابر چلا گیا

ہم بھی اسی کے ساتھ گئے ہوش سے سعیدؔ
لمحہ جو قید وقت سے باہر چلا گیا