ہونے کی اک جھلک سی دکھا کر چلا گیا
کھولی تھی ہم نے آنکھ کہ منظر چلا گیا
کیا خود کو دیکھنے کا عجب شوق تھا کہ وہ
چپ چاپ اٹھ کے سوئے سمندر چلا گیا
کن دائروں میں گھومتے ہیں اب خبر نہیں
کیوں ہاتھ سے وہ چاک سا چکر چلا گیا
پہلے قدم پہ ختم ہوا قصۂ جنوں
پہلا قدم ہی دشت برابر چلا گیا
ہم بھی اسی کے ساتھ گئے ہوش سے سعیدؔ
لمحہ جو قید وقت سے باہر چلا گیا

غزل
ہونے کی اک جھلک سی دکھا کر چلا گیا
سعید احمد