جب سماعت تری آواز تلک جاتی ہے
جانے کیوں پاؤں کی زنجیر چھنک جاتی ہے
پھر اسی غار کے اسرار مجھے کھینچتے ہیں
جس طرف شام کی سنسان سڑک جاتی ہے
جانے کس قریۂ امکاں سے وہ لفظ آتا ہے
جس کی خوشبو سے ہر اک سطر مہک جاتی ہے
مو قلم خوں میں ڈبوتا ہے مصور شاید
آنکھ کی پتلی سے تصویر چپک جاتی ہے
داستانوں کے زمانوں کی خبر ملتی ہے
آئینے میں وہ پری جب بھی جھلک جاتی ہے
خشک پتوں میں کسی یاد کا شعلہ ہے سعیدؔ
میں بجھاتا ہوں مگر آگ بھڑک جاتی ہے
غزل
جب سماعت تری آواز تلک جاتی ہے
سعید احمد