شورش وقت ہوئی وقت کی رفتار میں گم
دن گزرتے ہیں ترے خواب کے آثار میں گم
کیا عجب تھی وہ فضاؤں میں گھلی بوئے قدیم
شہر کا شہر ہوا وحشت اسرار میں گم
اس کہانی کا بھی عنوان کوئی حیرت حسن
آئینہ عکس میں عکس آئینہ بردار میں گم
دیکھ یہ آنکھ تری چھب سے ہوئی خاکستر
سن سماعت ہے تری نرمیٔ گفتار میں گم
جو ترے خطۂ بے آب کی خواہش نہ بنا
کلبلاتا ہے وہ دریا کسی کہسار میں گم
اب تمناؤں کے اثبات کا سہتے ہیں عذاب
ہم کہ رہتے تھے کبھی نشۂ انکار میں گم
کس طرح ان پہ خموشی کے معانی کھلتے
عمر بھر لوگ رہے لفظ کی تکرار میں گم
غزل
شورش وقت ہوئی وقت کی رفتار میں گم
سعید احمد