اک برگ خشک سے گل تازہ تک آ گئے
ہم شہر دل سے جسم کے صحرا تک آ گئے
اس شام ڈوبنے کی تمنا نہیں رہی
جس شام تیرے حسن کے دریا تک آ گئے
کچھ لوگ ابتدائے رفاقت سے قبل ہی
آئندہ کے ہر ایک گزشتہ تک آ گئے
یہ کیا کہ تم سے راز محبت نہیں چھپا
یہ کیا کہ تم بھی شوق تماشا تک آ گئے
بیزارئ کمال سے اتنا ہوا کہ ہم
آرام سے زوال تمنا تک آ گئے
غزل
اک برگ خشک سے گل تازہ تک آ گئے
سعید احمد