EN हिंदी
وہی خرابۂ امکاں وہی سفال قدیم | شیح شیری
wahi KHaraba-e-imkan wahi sifal-e-qadim

غزل

وہی خرابۂ امکاں وہی سفال قدیم

سعید احمد

;

وہی خرابۂ امکاں وہی سفال قدیم
ہمک رہا ہے کہیں دل میں اک خیال قدیم

کھڑا ہوں جیسے ابھی تک ازل کے زینے پر
نظر میں ہے وہی نظارۂ جمال قدیم

فراق رات میں زندہ رہے کہ زندہ تھی
ہماری روح میں سرشارئ وصال قدیم

مرا وجود حوالہ ترا ہوا آخر
تو کھا گیا نا مجھے تو مرے سوال قدیم

یہ حبس وقت یہ لا انتہا گھٹن کی رتیں
برس کے کھل بھی کبھی ابر احتمال قدیم

سعیدؔ کہنے کو کیا کچھ بدل گیا لیکن
وہی ہے تو وہی زندان ماہ و سال قدیم