EN हिंदी
آج ویرانیوں میں مرا دل نیا سلسلہ چاہتا ہے | شیح شیری
aaj viraniyon mein mera dil naya silsila chahta hai

غزل

آج ویرانیوں میں مرا دل نیا سلسلہ چاہتا ہے

رفیق خیال

;

آج ویرانیوں میں مرا دل نیا سلسلہ چاہتا ہے
شام ڈھلنے کو ہے زندگی کی خدا اور کیا چاہتا ہے

دھوپ کی نیتوں میں بھڑکنے لگے نفرتوں کے الاؤ
اے گھٹا اس لیے تجھ کو میرا بدن اوڑھنا چاہتا ہے

نیند کی راحتوں سے نہیں مطمئن سلسلہ دھڑکنوں کا
پھر دل زار رعنائیوں میں گندھا رتجگا چاہتا ہے

تیری نزدیکیوں کو پہن کے میں شہزادہ لگنے لگا ہوں
چھو کے رنگینیاں اب کے دیکھوں تری، جی بڑا چاہتا ہے

پرورش حوصلوں کی تمام عمر میرے لہو نے خموشی سے کی
اب جنوں عکس کو دیکھنے کے لیے آئینہ چاہتا ہے

جو ہتھیلی کی ساری پرانی لکیروں کو تبدیل کر دے
ایسا خوش رنگ ہر آدمی اب یہاں سانحہ چاہتا ہے

تم سمندر کے سہمے ہوئے جوش کو میرا پیغام دینا
موسم حبس میں پھر کوئی آج تازہ ہوا چاہتا ہے

عمر بھر آنسوؤں سے جو دھوتا رہا چہرہ محرومیوں کا
وہ تری رحمتوں سے مرے مولا اب کے جزا چاہتا ہے

ناز تھا جس کو میری رفاقت کے ہر لمحۂ مختصر پر
آج محسوس ایسا ہوا ہے کہ وہ فاصلہ چاہتا ہے