کتنا جاں سوز ہے منظر مری تنہائی کا
حوصلہ مجھ میں نہیں انجمن آرائی کا
میں نے سمجھا تھا جسے باعث تسکین نظر
اس نے سامان کیا ہے مری رسوائی کا
میری باتوں میں نیا رنگ کہاں سے آئے
میرے دل میں بھی ہے اک زخم شناسائی کا
بات تو جب ہے کہ جذبوں سے صداقت پھوٹے
یوں تو دعویٰ ہے ہر اک شخص کو سچائی کا
روح میں جذبۂ الفت کو فزوں پاتا ہوں
جب خیال آتا ہے مجھ کو تری رعنائی کا
اے خیالؔ آتش احساس بھڑک جائے گی
آپ دعویٰ نہ کریں دھوپ میں دانائی کا

غزل
کتنا جاں سوز ہے منظر مری تنہائی کا
رفیق خیال