EN हिंदी
زندہ ہیں مرے خواب یہ کب یاد ہے مجھ کو | شیح شیری
zinda hain mere KHwab ye kab yaad hai mujhko

غزل

زندہ ہیں مرے خواب یہ کب یاد ہے مجھ کو

رفیق خیال

;

زندہ ہیں مرے خواب یہ کب یاد ہے مجھ کو
ہاں ترک محبت کا سبب یاد ہے مجھ کو

تفصیل عنایات تو اب یاد نہیں ہے
پر پہلی ملاقات کی شب یاد ہے مجھ کو

خوشبو کی رفاقت کا نشہ ٹوٹ رہا ہے
لیکن وہ سفر داد طلب یاد ہے مجھ کو

اب شام کے ہاتھوں جو گرفتار ہے سورج
دوپہر میں تھا قہر و غضب یاد ہے مجھ کو

ایوان مری روح کے روشن کیے جس نے
وہ شوخیٔ یک جنبش لب یاد ہے مجھ کو

کچھ دن سے مقید ہوں میں ویرانۂ جاں میں
حالانکہ کوئی شہر طرب یاد ہے مجھ کو

کیوں یاد دلاتے ہو مجھے چاندنی راتیں
پیمان وفا تم سے ہے سب یاد ہے مجھ کو

وہ شخص خیالؔ آج جو روپوش ہے مجھ میں
تھے اس میں کمالات عجب یاد ہے مجھ کو