خیمۂ خواب کی طنابیں کھول
قافلہ جا چکا ہے آنکھیں کھول
اے زمیں میرا خیر مقدم کر
تیرا بیٹا ہوں اپنی بانہیں کھول
ڈوب جائیں نہ پھول کی نبضیں
اے خدا موسموں کی سانسیں کھول
فاش کر بھید دو جہانوں کے
مجھ پہ سربستہ کائناتیں کھول
پڑ نہ جائے نگر میں رسم سکوت
قفل لب توڑ دے زبانیں کھول
غزل
خیمۂ خواب کی طنابیں کھول
رفیق سندیلوی