EN हिंदी
خیمۂ خواب کی طنابیں کھول | شیح شیری
KHema-e-KHwab ki tanaben khol

غزل

خیمۂ خواب کی طنابیں کھول

رفیق سندیلوی

;

خیمۂ خواب کی طنابیں کھول
قافلہ جا چکا ہے آنکھیں کھول

اے زمیں میرا خیر مقدم کر
تیرا بیٹا ہوں اپنی بانہیں کھول

ڈوب جائیں نہ پھول کی نبضیں
اے خدا موسموں کی سانسیں کھول

فاش کر بھید دو جہانوں کے
مجھ پہ سربستہ کائناتیں کھول

پڑ نہ جائے نگر میں رسم سکوت
قفل لب توڑ دے زبانیں کھول