EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

میں آخر کون سا موسم تمہارے نام کر دیتا
یہاں ہر ایک موسم کو گزر جانے کی جلدی تھی

راحتؔ اندوری




میں نے اپنی خشک آنکھوں سے لہو چھلکا دیا
اک سمندر کہہ رہا تھا مجھ کو پانی چاہئے

راحتؔ اندوری




میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ
گیلی زمین کھود کے فرہاد ہو گئے

راحتؔ اندوری




مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو
سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دوں گا اسے

راحتؔ اندوری




مری خواہش ہے کہ آنگن میں نہ دیوار اٹھے
مرے بھائی مرے حصے کی زمیں تو رکھ لے

راحتؔ اندوری




نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا

راحتؔ اندوری




نئے کردار آتے جا رہے ہیں
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے

راحتؔ اندوری