میسر آج سروکار سے زیادہ ہے
دیے کی روشنی مقدار سے زیادہ ہے
یہ جھانک لیتی ہے اندر سے آرزو خانہ
ہوا کا قد مری دیوار سے زیادہ ہے
گھٹن سے ڈرتے میں شہر ہوا میں آیا تھا
مگر یہ تازگی درکار سے زیادہ ہے
یونہی میں آنکھ سے باہر نکل کے دیکھتا ہوں
مرا قدم مری رفتار سے زیادہ ہے
میں روز گھر کی خموشی میں اس کو سنتا ہوں
جو شور رونق بازار سے زیادہ ہے
میں متقی ہوں مگر حوصلہ گناہوں کا
مرے بدن میں گنہ گار سے زیادہ ہے
غزل
میسر آج سروکار سے زیادہ ہے
قاسم یعقوب