میں مطمئن نہ تھا کردار سے کہانی میں
سو اپنی عمر گزرنے دی رائیگانی میں
بلاد حال سجایا ہے کوئے رفتہ میں
میں اپنے پیش رؤں کی ہوں ترجمانی میں
یہ کیا کہ بیٹھا ہے دریا کنار دریا پر
میں آج بہتا ہوا جا رہا ہوں پانی میں
ہاں آخرش ابد اشتراک خاک ملا
گو ہم رہے سفر آسمان فانی میں
یہ شعر زر سخن بے اثر کی مرقد ہے
سو کیسے سوز اجاگر ہو نغمہ خوانی میں
غزل
میں مطمئن نہ تھا کردار سے کہانی میں
قاسم یعقوب