EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

یہ انتظار کی گھڑیاں یہ شب کا سناٹا
اس ایک شب میں بھرے ہیں ہزار سال کے دن

قمر صدیقی




عجب طرح کی ہے دنیا برنگ بو قلموں
کہ ہے ہر ایک جداگانہ الاماں تنہا

قاسم علی خان آفریدی




بس نہیں چلتا ہے ورنہ اپنے مر جانے کے ساتھ
پھینک دیتے کھود کر دنیا کی سب بنیاد ہم

قاسم علی خان آفریدی




ہے جدا سجدہ کی جا ہندو مسلماں کی مگر
فہم والوں کے تئیں دیر و حرم دونوں ایک

قاسم علی خان آفریدی




عشق ہے اے دل کٹھن کچھ خانۂ خالہ نہیں
رکھ دلیرانہ قدم تا تجھ کو ہو امداد داد

قاسم علی خان آفریدی




کام ہے مطلب سے چاہے کفر ہووے یا کہ دیں
جا پہنچنا ہے کسی صورت سے اپنے یار تک

قاسم علی خان آفریدی




خدا کو سجدہ کر کے مبتذل زاہد ہوا اب تو
تو جا کر مہ جبیں کے آستاں پہ جبہ سائی کر

قاسم علی خان آفریدی