EN हिंदी
انگڑائی پر انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی | شیح شیری
angDai par angDai leti hai raat judai ki

غزل

انگڑائی پر انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی

قتیل شفائی

;

انگڑائی پر انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی
تم کیا سمجھو تم کیا جانو بات مری تنہائی کی

کون سیاہی گھول رہا تھا وقت کے بہتے دریا میں
میں نے آنکھ جھکی دیکھی ہے آج کسی ہرجائی کی

ٹوٹ گئے سیال نگینے پھوٹ بہے رخساروں پر
دیکھو میرا ساتھ نہ دینا بات ہے یہ رسوائی کی

وصل کی رات نہ جانے کیوں اصرار تھا ان کو جانے پر
وقت سے پہلے ڈوب گئے تاروں نے بڑی دانائی کی

اڑتے اڑتے آس کا پنچھی دور افق میں ڈوب گیا
روتے روتے بیٹھ گئی آواز کسی سودائی کی