دست ہنر جھٹکتے ہی ضائع ہنر گیا
چارہ گری نہیں رہی جب چارہ گر گیا
ہستی سے مل گیا مجھے کچھ نیستی کا فہم
صحرا وہاں ملا جہاں دریا اتر گیا
کیا ہو سکے حساب کہ جب آگہی کہے
اب تک تو رائیگانی میں سارا سفر گیا
وہ ایک جذبہ جس نے جمال آشنا کیا
منظر ہٹا تو جسم کے اندر ہی مر گیا
شاید سر حیات مجھے آ ملے کبھی
اک شخص میرے جیسا نہ جانے کدھر گیا
غزل
دست ہنر جھٹکتے ہی ضائع ہنر گیا
قاسم یعقوب