EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

وہ وقت بھی آتا ہے جب آنکھوں میں ہماری
پھرتی ہیں وہ شکلیں جنہیں دیکھا نہیں ہوتا

احمد مشتاق




یار سب جمع ہوئے رات کی خاموشی میں
کوئی رو کر تو کوئی بال بنا کر آیا

احمد مشتاق




یہی دنیا تھی مگر آج بھی یوں لگتا ہے
جیسے کاٹی ہوں ترے ہجر کی راتیں کہیں اور

احمد مشتاق




یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے
اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں

احمد مشتاق




یہ تنہا رات یہ گہری فضائیں
اسے ڈھونڈیں کہ اس کو بھول جائیں

احمد مشتاق




یہ وہ موسم ہے جس میں کوئی پتا بھی نہیں ہلتا
دل تنہا اٹھاتا ہے صعوبت شام ہجراں کی

احمد مشتاق




آغوش میں مہکوگے دکھائی نہیں دو گے
تم نکہت گلزار ہو ہم پردۂ شب ہیں

احمد ندیم قاسمی