بہت رک رک کے چلتی ہے ہوا خالی مکانوں میں
بجھے ٹکڑے پڑے ہیں سگریٹوں کے راکھ دانوں میں
دھوئیں سے آسماں کا رنگ میلا ہوتا جاتا ہے
ہرے جنگل بدلتے جا رہے ہیں کارخانوں میں
بھلی لگتی ہے آنکھوں کو نئے پھولوں کی رنگت بھی
پرانے زمزمے بھی گونجتے رہتے ہیں کانوں میں
وہی گلشن ہے لیکن وقت کی پرواز تو دیکھو
کوئی طائر نہیں پچھلے برس کے آشیانوں میں
زبانوں پر الجھتے دوستوں کو کون سمجھائے
محبت کی زباں ممتاز ہے ساری زبانوں میں
غزل
بہت رک رک کے چلتی ہے ہوا خالی مکانوں میں
احمد مشتاق