EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہر اک مکاں میں گزر گاہ خواب ہے لیکن
اگر نہیں تو نہیں عشق کے جناب میں خواب

نظیر اکبرآبادی




ہستیاں نیستیاں یاں بھی ہیں ایسی جیسے
وہ کمر اور وہ دہاں کچھ نہیں اور سب کچھ ہے

نظیر اکبرآبادی




حسن کے ناز اٹھانے کے سوا
ہم سے اور حسن عمل کیا ہوگا

نظیر اکبرآبادی




اک دم کی زندگی کے لیے مت اٹھا مجھے
اے بے خبر میں نقش زمیں کی نشست ہوں

نظیر اکبرآبادی




عشق کا دور کرے دل سے جو دھڑکا تعویذ
اس دھڑاکے کا کوئی ہم نے نہ دیکھا تعویذ

نظیر اکبرآبادی




جا پڑے چپ ہو کے جب شہر خموشاں میں نظیرؔ
یہ غزل یہ ریختہ یہ شعر خوانی پھر کہاں

نظیر اکبرآبادی




جس کام کو جہاں میں تو آیا تھا اے نظیرؔ
خانہ خراب تجھ سے وہی کام رہ گیا

نظیر اکبرآبادی