ہر اک مکاں میں گزر گاہ خواب ہے لیکن
اگر نہیں تو نہیں عشق کے جناب میں خواب
نظیر اکبرآبادی
ہستیاں نیستیاں یاں بھی ہیں ایسی جیسے
وہ کمر اور وہ دہاں کچھ نہیں اور سب کچھ ہے
نظیر اکبرآبادی
حسن کے ناز اٹھانے کے سوا
ہم سے اور حسن عمل کیا ہوگا
نظیر اکبرآبادی
اک دم کی زندگی کے لیے مت اٹھا مجھے
اے بے خبر میں نقش زمیں کی نشست ہوں
نظیر اکبرآبادی
عشق کا دور کرے دل سے جو دھڑکا تعویذ
اس دھڑاکے کا کوئی ہم نے نہ دیکھا تعویذ
نظیر اکبرآبادی
جا پڑے چپ ہو کے جب شہر خموشاں میں نظیرؔ
یہ غزل یہ ریختہ یہ شعر خوانی پھر کہاں
نظیر اکبرآبادی
جس کام کو جہاں میں تو آیا تھا اے نظیرؔ
خانہ خراب تجھ سے وہی کام رہ گیا
نظیر اکبرآبادی