EN हिंदी
لیتا ہے جان میری تو میں سر بدست ہوں | شیح شیری
leta hai jaan meri to mein sar-ba-dast hun

غزل

لیتا ہے جان میری تو میں سر بدست ہوں

نظیر اکبرآبادی

;

لیتا ہے جان میری تو میں سر بدست ہوں
اے یار میں تو کشتۂ روز الست ہوں

اک دم کی زندگی کے لیے مت اٹھا مجھے
اے بے خبر میں نقش زمیں کی نشست ہوں

تو مست کر شراب سے اے گل بدن مجھے
ظالم میں تیری چشم گلابی سے مست ہوں

دور از طریق مجھ کو سمجھیو نہ زاہدا
گر تو خدا پرست ہے میں بت پرست ہوں

ان سنگ دل بتوں کا گلہ کیا کروں نظیرؔ
میں آپ اپنے شیشۂ دل کی شکست ہوں