لیتا ہے جان میری تو میں سر بدست ہوں
اے یار میں تو کشتۂ روز الست ہوں
اک دم کی زندگی کے لیے مت اٹھا مجھے
اے بے خبر میں نقش زمیں کی نشست ہوں
تو مست کر شراب سے اے گل بدن مجھے
ظالم میں تیری چشم گلابی سے مست ہوں
دور از طریق مجھ کو سمجھیو نہ زاہدا
گر تو خدا پرست ہے میں بت پرست ہوں
ان سنگ دل بتوں کا گلہ کیا کروں نظیرؔ
میں آپ اپنے شیشۂ دل کی شکست ہوں
غزل
لیتا ہے جان میری تو میں سر بدست ہوں
نظیر اکبرآبادی