بے زری فاقہ کشی مفلسی بے سامانی
ہم فقیروں کے بھی ہاں کچھ نہیں اور سب کچھ ہے
نظیر اکبرآبادی
بھلا دیں ہم نے کتابیں کہ اس پری رو کے
کتابی چہرے کے آگے کتاب ہے کیا چیز
نظیر اکبرآبادی
چلتے چلتے نہ خلش کر فلک دوں سے نظیرؔ
فائدہ کیا ہے کمینے سے جھگڑ کر چلنا
نظیر اکبرآبادی
چمک ہے درد ہے کوندن پڑی ہے ہوک اٹھتی ہے
مرے پہلو میں کیوں یارو یہ دل ہے یا کہ پھوڑا ہے
نظیر اکبرآبادی
دیکھ لے اس چمن دہر کو دل بھر کے نظیرؔ
پھر ترا کاہے کو اس باغ میں آنا ہوگا
نظیر اکبرآبادی
دیکھ اسے رنگ بہار و سرو و گل اور جوئبار
اک اڑا اک گر گیا اک جل گیا اک بہہ گیا
نظیر اکبرآبادی
دیکھے نہ مجھے کیوں کر از چشم حقارت او
وہ سرو جواں یارو من فاختۂ پیرم
نظیر اکبرآبادی