EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

بے زری فاقہ کشی مفلسی بے سامانی
ہم فقیروں کے بھی ہاں کچھ نہیں اور سب کچھ ہے

نظیر اکبرآبادی




بھلا دیں ہم نے کتابیں کہ اس پری رو کے
کتابی چہرے کے آگے کتاب ہے کیا چیز

نظیر اکبرآبادی




چلتے چلتے نہ خلش کر فلک دوں سے نظیرؔ
فائدہ کیا ہے کمینے سے جھگڑ کر چلنا

نظیر اکبرآبادی




چمک ہے درد ہے کوندن پڑی ہے ہوک اٹھتی ہے
مرے پہلو میں کیوں یارو یہ دل ہے یا کہ پھوڑا ہے

نظیر اکبرآبادی




دیکھ لے اس چمن دہر کو دل بھر کے نظیرؔ
پھر ترا کاہے کو اس باغ میں آنا ہوگا

نظیر اکبرآبادی




دیکھ اسے رنگ بہار و سرو و گل اور جوئبار
اک اڑا اک گر گیا اک جل گیا اک بہہ گیا

نظیر اکبرآبادی




دیکھے نہ مجھے کیوں کر از چشم حقارت او
وہ سرو جواں یارو من فاختۂ پیرم

نظیر اکبرآبادی