کل بوسۂ پا ہم نے لیا تھا سو نہ آیا
شاید کہ وہ بوسہ ہی ہوا آبلۂ پا
نظیر اکبرآبادی
کل نظیرؔ اس نے جو پوچھا بزبان پنجاب
نیہ وچ مینڈی اے کی حال تسادا وے میاں
نظیر اکبرآبادی
کل شب وصل میں کیا جلد بجی تھیں گھڑیاں
آج کیا مر گئے گھڑیال بجانے والے
نظیر اکبرآبادی
کمال عشق بھی خالی نہیں تمنا سے
جو ہے اک آہ تو اس کو بھی ہے اثر کی طلب
نظیر اکبرآبادی
خفا دیکھا ہے اس کو خواب میں دل سخت مضطر ہے
کھلا دے دیکھیے کیا کیا گل تعبیر خواب اپنا
نظیر اکبرآبادی
خدا کے واسطے گل کو نہ میرے ہاتھ سے لو
مجھے بو آتی ہے اس میں کسی بدن کی سی
نظیر اکبرآبادی
کس کو کہئے نیک اور ٹھہرائیے کس کو برا
غور سے دیکھا تو سب اپنے ہی بھائی بند ہیں
نظیر اکبرآبادی