EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

گئے تھے ملنے کو شاید جھڑک دیا اس نے
میاں نظیرؔ تو کچھ شرمسار آتے ہیں

نظیر اکبرآبادی




غرض نہ سر کی خبر تھی نہ پا کا ہوش نظیرؔ
سرہانا پائنتی اور پائنتی سرہانا تھا

نظیر اکبرآبادی




غش کھا کے گرا پہلے ہی شعلے کی جھلک سے
موسیٰ کو بھلا کہئے تو کیا طور کی سوجھی

نظیر اکبرآبادی




گو سفیدی مو کی یوں روشن ہے جوں آب حیات
لیکن اپنی تو اسی ظلمات سے تھی زندگی

نظیر اکبرآبادی




ہے دسہرے میں بھی یوں گر فرحت و زینت نظیرؔ
پر دوالی بھی عجب پاکیزہ تر تیوہار ہے

نظیر اکبرآبادی




ہم حال تو کہہ سکتے ہیں اپنا پہ کہیں کیا
جب وہ ادھر آتے ہیں تو تنہا نہیں آتے

نظیر اکبرآبادی




ہم وہ درخت ہیں کہ جسے دم بدم اجل
ارّہ ادھر دکھاتی ہے اودھر تبر قضا

نظیر اکبرآبادی