EN हिंदी
عیش کر خوباں میں اے دل شادمانی پھر کہاں | شیح شیری
aish kar KHuban mein ai dil shadmani phir kahan

غزل

عیش کر خوباں میں اے دل شادمانی پھر کہاں

نظیر اکبرآبادی

;

عیش کر خوباں میں اے دل شادمانی پھر کہاں
شادمانی گر ہوئی تو زندگانی پھر کہاں

جس قدر پینا ہو پی لے پانی ان کے ہاتھ سے
آب جنت تو بہت ہوگا یہ پانی پھر کہاں

لذتیں جنت کے میوے کی بہت ہوں گی وہاں
پھر یہ میٹھی گالیاں خوباں کی کھانی پھر کہاں

واں تو ہاں حوروں کے گہنے کے بہت ہوں گے نشاں
ان پری زادوں کے چھلوں کی نشانی پھر کہاں

الفت و مہر و محبت سب ہیں جیتے جی کے ساتھ
مہرباں ہی اٹھ گئے یہ مہربانی پھر کہاں

واعظ و ناصح بکیں تو ان کے کہنے کو نہ مان
دم غنیمت ہے میاں یہ نوجوانی پھر کہاں

جا پڑے چپ ہو کے جب شہر خموشاں میں نظیرؔ
یہ غزل یہ ریختہ یہ شعر خوانی پھر کہاں