دیکھیں گے ہم اک نگاہ اس کو
کچھ ہوش اگر بجا رہے گا
نظیر اکبرآبادی
دیوانگی میری کے تحیر میں شب و روز
ہے حلقۂ زنجیر سے زنداں ہمہ تن چشم
نظیر اکبرآبادی
دل کی بیتابی نہیں ٹھہرنے دیتی ہے مجھے
دن کہیں رات کہیں صبح کہیں شام کہیں
نظیر اکبرآبادی
دل کی بے تابی ٹھہرنے نہیں دیتی مجھ کو
دن کہیں رات کہیں صبح کہیں شام کہیں
نظیر اکبرآبادی
دوستو کیا کیا دوالی میں نشاط و عیش ہے
سب مہیا ہے جو اس ہنگام کے شایاں ہے شے
نظیر اکبرآبادی
دور سے آئے تھے ساقی سن کے مے خانے کو ہم
بس ترستے ہی چلے افسوس پیمانے کو ہم
نظیر اکبرآبادی
دور از طریق مجھ کو سمجھیو نہ زاہدا
گر تو خدا پرست ہے میں بت پرست ہوں
نظیر اکبرآبادی