جسے مول لینا ہو لے لے خوشی سے
میں اس وقت دونوں جہاں بیچتا ہوں
نظیر اکبرآبادی
جسم کیا روح کی ہے جولاں گاہ
روح کیا اک سوار پا بہ رکاب
نظیر اکبرآبادی
جتنے ہیں کشتگان عشق ان کے ازل سے ہیں ملے
اشک سے اشک نم سے نم خون سے خون گل سے گل
نظیر اکبرآبادی
جو بات ہجر کی آتی تو اپنے دامن سے
وہ آنسو پونچھتا جاتا تھا اور میں روتا تھا
نظیر اکبرآبادی
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
حق تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
نظیر اکبرآبادی
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
سچ تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
نظیر اکبرآبادی
کہیں بیٹھنے دے دل اب مجھے جو حواس ٹک میں بجا کروں
نہیں تاب مجھ میں کہ جب تلک تو پھرے تو میں بھی پھرا کروں
نظیر اکبرآبادی