EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

آنچ آتی ہے ترے جسم کی عریانی سے
پیرہن ہے کہ سلگتی ہوئی شب ہے کوئی

ناصر کاظمی




آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں

ناصر کاظمی




آج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی

ناصر کاظمی




آرزو ہے کہ تو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں

ناصر کاظمی




اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

ناصر کاظمی




اکیلے گھر سے پوچھتی ہے بے کسی
ترا دیا جلانے والے کیا ہوئے

ناصر کاظمی




اپنی دھن میں رہتا ہوں
میں بھی تیرے جیسا ہوں

ناصر کاظمی