وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے
وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے
وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں
جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے
میں ان کی راہ دیکھتا ہوں رات بھر
وہ روشنی دکھانے والے کیا ہوئے
یہ کون لوگ ہیں مرے ادھر ادھر
وہ دوستی نبھانے والے کیا ہوئے
وہ دل میں کھبنے والی آنکھیں کیا ہوئیں
وہ ہونٹ مسکرانے والے کیا ہوئے
عمارتیں تو جل کے راکھ ہو گئیں
عمارتیں بنانے والے کیا ہوئے
اکیلے گھر سے پوچھتی ہے بے کسی
ترا دیا جلانے والے کیا ہوئے
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
غزل
وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے
ناصر کاظمی