EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اب تک ہماری عمر کا بچپن نہیں گیا
گھر سے چلے تھے جیب کے پیسے گرا دیے

نشتر خانقاہی




بچھڑ کر اس سے سیکھا ہے تصور کو بدن کرنا
اکیلے میں اسے چھونا اکیلے میں سخن کرنا

نشتر خانقاہی




مری قیمت کو سنتے ہیں تو گاہک لوٹ جاتے ہیں
بہت کمیاب ہو جو شے وہ ہوتی ہے گراں اکثر

نشتر خانقاہی




پرسش حال سے غم اور نہ بڑھ جائے کہیں
ہم نے اس ڈر سے کبھی حال نہ پوچھا اپنا

نشتر خانقاہی




دیوار خستہ حال ہے اور در اداس ہے
جب سے کوئی گیا ہے مرا گھر اداس ہے

ناصر بشیر




تا ابد جس کا نہ سایا جائے
پیڑ ایسا بھی لگایا جائے

ناصر بشیر




ہچکیاں رات درد تنہائی
آ بھی جاؤ تسلیاں دے دو

ناصر جونپوری