EN हिंदी
تھکے ہوؤں کو جو منزل کٹھن زیادہ ہوئی | شیح شیری
thake huon ko jo manzil kaThin ziyaada hui

غزل

تھکے ہوؤں کو جو منزل کٹھن زیادہ ہوئی

نسیم سحر

;

تھکے ہوؤں کو جو منزل کٹھن زیادہ ہوئی
سفر کا عزم مصمم لگن زیادہ ہوئی

اداس پیڑوں نے پتوں کی بھینٹ دے دی ہے
خزاں میں رونق صحن چمن زیادہ ہوئی

زباں پہ حبس کی خواہش مچل مچل اٹھی
ہوا چلی تو گھروں میں گھٹن زیادہ ہوئی

سفر کا مرحلۂ سخت ہی غنیمت تھا
ٹھہر گئے تو بدن کی تھکن زیادہ ہوئی

کبھی تو سرد لگا دوپہر کا سورج بھی
کبھی بدن کے لیے اک کرن زیادہ ہوئی

عروس زیست پہ یوں بھی نکھار کیا کم تھا
لہو لباس کیا تو پھبن زیادہ ہوئی

طلب کے ہونٹوں پہ آسودگی کا لفظ کہاں؟
طلب وسیلۂ دار و رسن زیادہ ہوئی

نسیمؔ کس کو تھا تہذیب فن کا دھیان یہاں
ہمارے عہد میں تشہیر فن زیادہ ہوئی