تھکے ہوؤں کو جو منزل کٹھن زیادہ ہوئی
سفر کا عزم مصمم لگن زیادہ ہوئی
اداس پیڑوں نے پتوں کی بھینٹ دے دی ہے
خزاں میں رونق صحن چمن زیادہ ہوئی
زباں پہ حبس کی خواہش مچل مچل اٹھی
ہوا چلی تو گھروں میں گھٹن زیادہ ہوئی
سفر کا مرحلۂ سخت ہی غنیمت تھا
ٹھہر گئے تو بدن کی تھکن زیادہ ہوئی
کبھی تو سرد لگا دوپہر کا سورج بھی
کبھی بدن کے لیے اک کرن زیادہ ہوئی
عروس زیست پہ یوں بھی نکھار کیا کم تھا
لہو لباس کیا تو پھبن زیادہ ہوئی
طلب کے ہونٹوں پہ آسودگی کا لفظ کہاں؟
طلب وسیلۂ دار و رسن زیادہ ہوئی
نسیمؔ کس کو تھا تہذیب فن کا دھیان یہاں
ہمارے عہد میں تشہیر فن زیادہ ہوئی
غزل
تھکے ہوؤں کو جو منزل کٹھن زیادہ ہوئی
نسیم سحر