نہ ارماں لے کے آیا ہوں نہ حسرت لے کے آیا ہوں
دل بیتاب میں تیری محبت لے کے آیا ہوں
نگاہوں میں ترے جلووں کی کثرت لے کے آیا ہوں
یہ عالم ہے کہ اک دنیائے حیرت لے کے آیا ہوں
لبوں پر خامشی آنکھوں میں آنسو دل میں بیتابی
میں ان کی بزم عشرت سے قیامت لے کے آیا ہوں
سر محشر اگر پرسش ہوئی مجھ سے تو کہہ دوں گا
سراپا جرم ہوں اشک ندامت لے کے آیا ہوں
مٹا کر ہستئ ناکام کو راہ محبت میں
زمانے کے لیے اک درس عبرت لے کے آیا ہوں
تلاش ساحل مقصد جہاں بے سود ہوتی ہے
میں ان موجوں میں اک پیغام راحت لے کے آیا ہوں
غزل
نہ ارماں لے کے آیا ہوں نہ حسرت لے کے آیا ہوں
نسیم شاہجہانپوری