کون ہے جو ہر لمحہ صورتیں بدلتا ہے
میں کسے سمجھنے کے مرحلوں میں زندہ ہوں
نجم الثاقب
میں ہی ٹوٹ کے بکھرا اور نہ رویا وہ
اب کے ہجر کے موسم کتنے جھوٹے تھے
نجم الثاقب
مرے ہاتھ میں ترے نام کی وہ لکیر مٹتی چلی گئی
مرے چارہ گر مرے درد کی ہی وضاحتوں میں لگے رہے
نجم الثاقب
پھر ایک بار لڑائی تھی اپنی سورج سے
ہم آئینوں کی طرح پھر یہاں وہاں ٹوٹے
نجم الثاقب
تجھ بن خالی رہ کر کتنے سال بتانے ہوں گے
میرے ہاتھوں میں تیری تقدیریں کب اتریں گی
نجم الثاقب
اسے بے نمو کسی خواب نے کہیں گہری نیند سلا دیا
اسے بھا گئی ہیں کہاوتیں اسے بھی قفس میں سکون ہے
نجم الثاقب
یہ جسم ٹوٹ کے حصوں میں بٹنے والا ہے
پھر اس پہ اپنی روایات کچھ نہیں ہوگا
نجم الثاقب

