EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کون ہے جو ہر لمحہ صورتیں بدلتا ہے
میں کسے سمجھنے کے مرحلوں میں زندہ ہوں

نجم الثاقب




میں ہی ٹوٹ کے بکھرا اور نہ رویا وہ
اب کے ہجر کے موسم کتنے جھوٹے تھے

نجم الثاقب




مرے ہاتھ میں ترے نام کی وہ لکیر مٹتی چلی گئی
مرے چارہ گر مرے درد کی ہی وضاحتوں میں لگے رہے

نجم الثاقب




پھر ایک بار لڑائی تھی اپنی سورج سے
ہم آئینوں کی طرح پھر یہاں وہاں ٹوٹے

نجم الثاقب




تجھ بن خالی رہ کر کتنے سال بتانے ہوں گے
میرے ہاتھوں میں تیری تقدیریں کب اتریں گی

نجم الثاقب




اسے بے نمو کسی خواب نے کہیں گہری نیند سلا دیا
اسے بھا گئی ہیں کہاوتیں اسے بھی قفس میں سکون ہے

نجم الثاقب




یہ جسم ٹوٹ کے حصوں میں بٹنے والا ہے
پھر اس پہ اپنی روایات کچھ نہیں ہوگا

نجم الثاقب