EN हिंदी
سمجھ لیے بھی جو حالات کچھ نہیں ہوگا | شیح شیری
samajh liye bhi jo haalat kuchh nahin hoga

غزل

سمجھ لیے بھی جو حالات کچھ نہیں ہوگا

نجم الثاقب

;

سمجھ لیے بھی جو حالات کچھ نہیں ہوگا
بہت اندھیری ہے یہ رات کچھ نہیں ہوگا

کسے پڑی ہے کہ بہتے گھروں کی فکر کرے
بہت گداز ہے برسات کچھ نہیں ہوگا

یہ جسم ٹوٹ کے حصوں میں بٹنے والا ہے
پھر اس پہ اپنی روایات کچھ نہیں ہوگا

ہمارے سامنے ہم ہیں لڑائی کس سے کریں
جو ہو گئی بھی تمہیں مات کچھ نہیں ہوگا

بس ایک بار بدلنا ہے اور پھلنا ہے
ہزار بار شکایات کچھ نہیں ہوگا

سماعتوں میں بھی در آئے ہیں ترے منظر
سنائی دیتی ہیں آیات کچھ نہیں ہوگا

سمے کٹھن ہے سفر دور کا ہے مل جاؤ
کرو گے کتنے سوالات کچھ نہیں ہوگا

پھر آج دوسرے صحنوں میں پھل گرے اپنے
پھر آج مرگ مفاجات کچھ نہیں ہوگا

بس ایک وقفہ سحر کا افق کے زینے پر
طویل قصۂ ظلمات کچھ نہیں ہوگا