EN हिंदी
سوچوں سے ان خوابوں کی زنجیریں کب اتریں گی | شیح شیری
sochon se in KHwabon ki zanjiren kab utrengi

غزل

سوچوں سے ان خوابوں کی زنجیریں کب اتریں گی

نجم الثاقب

;

سوچوں سے ان خوابوں کی زنجیریں کب اتریں گی
رستہ دیکھتی آنکھوں پر تعبیریں کب اتریں گی

اپنے پیاروں کے جانے کا ماتم کب تک ہوگا
دیواروں سے یہ پچھلی تصویریں کب اتریں گی

ٹوٹی کڑیاں جوڑنے والے آخر کب آئیں گے
گرہیں کھولنے والی وہ تحریریں کب اتریں گی

تجھ بن خالی رہ کر کتنے سال بتانے ہوں گے
میرے ہاتھوں میں تیری تقدیریں کب اتریں گی

کب بدلیں گی زخم پہ مرہم رکھنے والی رسمیں
درد کی گہرائی میں یہ تدبیریں کب اتریں گی