EN हिंदी
کوئی ہے جو غم نہیں جھیلتا کسے ہر نفس میں سکون ہے | شیح شیری
koi hai jo gham nahin jhelta kise har nafas mein sukun hai

غزل

کوئی ہے جو غم نہیں جھیلتا کسے ہر نفس میں سکون ہے

نجم الثاقب

;

کوئی ہے جو غم نہیں جھیلتا کسے ہر نفس میں سکون ہے
ترے چارہ گر کو خبر نہیں ترے اپنے بس میں سکون ہے

کسی مصلحت کے غبار میں کہاں راستہ نظر آئے گا
اسے جا کے دیکھیے دوستو جسے پیش و پس میں سکون ہے

مرے راستے بڑے نرم خو وہ شمال ہو کہ جنوب ہو
مرے قلزم غم جاوداں ترے نیلے رس میں سکون ہے

اسے بے نمو کسی خواب نے کہیں گہری نیند سلا دیا
اسے بھا گئی ہیں کہاوتیں اسے بھی قفس میں سکون ہے

کبھی حادثوں سے ڈرا نہیں کبھی فیصلوں سے پھرا نہیں
مری بے یقینیاں بے خبر مری دسترس میں سکون ہے