EN हिंदी
وہی محترم رہے شہر میں جو تفاوتوں میں لگے رہے | شیح شیری
wahi mohtaram rahe shahr mein jo tafawuton mein lage rahe

غزل

وہی محترم رہے شہر میں جو تفاوتوں میں لگے رہے

نجم الثاقب

;

وہی محترم رہے شہر میں جو تفاوتوں میں لگے رہے
جنہیں پاس عزت حرف تھا وہ ریاضتوں میں لگے رہے

انہیں تم درازیٔ عمر کی نہیں، حوصلے کی دعائیں دو
وہ جو ایک نسبت بے اماں کی حفاظتوں میں لگے رہے

مرے ہاتھ میں ترے نام کی وہ لکیر مٹتی چلی گئی
مرے چارہ گر مرے درد کی ہی وضاحتوں میں لگے رہے

انہیں بے یقینیٔ صبح کی میں دلیل دوں بھی تو کس طرح
وہ جو ابتدا میں ہی انتہا کی ضمانتوں میں لگے رہے

تری حیرتیں تری آنکھ میں ہی تمام عمر پڑی رہیں
تری شاعری کے سبھی ہنر تو شکایتوں میں لگے رہے