بلند آواز سے گھڑیال کہتا ہے کہ اے غافل
کٹی یہ بھی گھڑی تجھ عمر سے اور تو نہیں چیتا
ناجی شاکر
نہ سیر باغ نہ ملنا نہ میٹھی باتیں ہیں
یہ دن بہار کے اے جان مفت جاتے ہیں
ناجی شاکر
سوائے گل کے وہ شوخ انکھیاں کسی طرف کو نہیں ہیں راغب
تو برگ نرگس اوپر بجا ہے لکھوں جو اپنے سجن کوں پتیاں
ناجی شاکر
اس کے رخسار دیکھ جیتا ہوں
عارضی میری زندگانی ہے
ناجی شاکر
زلف کیوں کھولتے ہو دن کو صنم
مکھ دکھایا ہے تو نہ رات کرو
ناجی شاکر
وہ اتر گئے تھے جو پار خود مجھے بیچ بحر میں چھوڑ کر
تھا جو ان میں اتنا ہی حوصلہ مجھے ڈوبتا بھی تو دیکھتے
نجمہ خان
آخری بار آیا تھا ملنے کوئی
ہجر مجھ کو ملا وصل کی شام میں
نجمہ شاہین کھوسہ

