EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

درد کی لہر میں زندگی بہہ گئی
عمر یوں کٹ گئی ہجر کی شام میں

نجمہ شاہین کھوسہ




زمین پاؤں تلے ہے نہ آسماں سر پر
پڑے ہیں گھر میں کئی لوگ بے گھروں کی طرح

نجمی صدیقی




بدن کو جاں سے جدا ہو کے زندہ رہنا ہے
یہ فیصلہ ہے فنا ہو کے زندہ رہنا ہے

نجم الثاقب




دل کو آج تسلی میں نے دے ڈالی
وہ سچا تھا اس کے وعدے جھوٹے تھے

نجم الثاقب




دکھ بھرا شہر کا منظر کبھی تبدیل بھی ہو
درد کو حد سے گزرتے کوئی کب تک دیکھے

نجم الثاقب




ہنوز رات ہے جلنا پڑے گا اس کو بھی
کہ میرے ساتھ پگھلنا پڑے گا اس کو بھی

نجم الثاقب




کبھی نہ ٹوٹنے والا حصار بن جاؤں
وہ میری ذات میں رہنے کا فیصلہ تو کرے

نجم الثاقب