تمہارا نام آیا اور ہم تکنے لگے رستہ
تمہاری یاد آئی اور کھڑکی کھول دی ہم نے
منور رانا
تمہارے شہر میں میت کو سب کاندھا نہیں دیتے
ہمارے گاؤں میں چھپر بھی سب مل کر اٹھاتے ہیں
منور رانا
تمہاری آنکھوں کی توہین ہے ذرا سوچو
تمہارا چاہنے والا شراب پیتا ہے
منور رانا
تمہیں بھی نیند سی آنے لگی ہے تھک گئے ہم بھی
چلو ہم آج یہ قصہ ادھورا چھوڑ دیتے ہیں
منور رانا
وسعت صحرا بھی منہ اپنا چھپا کر نکلی
ساری دنیا مرے کمرے کے برابر نکلی
منور رانا
یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا
میں جب تک گھر نہ لوٹوں میری ماں سجدے میں رہتی ہے
منور رانا
یہ سوچ کر کہ ترا انتظار لازم ہے
تمام عمر گھڑی کی طرف نہیں دیکھا
منور رانا

