ایسا سفر ہے جس کی کوئی انتہا نہیں
ایسا مکاں ہے جس میں کوئی ہم نفس نہیں
منیر نیازی
اپنے گھروں سے دور بنوں میں پھرتے ہوئے آوارہ لوگو
کبھی کبھی جب وقت ملے تو اپنے گھر بھی جاتے رہنا
منیر نیازی
اپنی ہی تیغ ادا سے آپ گھائل ہو گیا
چاند نے پانی میں دیکھا اور پاگل ہو گیا
منیر نیازی
بڑی مشکل سے یہ جانا کہ ہجر یار میں رہنا
بہت مشکل ہے پر آخر میں آسانی بہت ہے
منیر نیازی
بہت ہی سست تھا منظر لہو کے رنگ لانے کا
نشاں آخر ہوا یہ سرخ تر آہستہ آہستہ
منیر نیازی
بیٹھ کر میں لکھ گیا ہوں درد دل کا ماجرا
خون کی اک بوند کاغذ کو رنگیلا کر گئی
منیر نیازی
بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا
منیر نیازی

