میں دنیا کے معیار پہ پورا نہیں اترا
دنیا مرے معیار پہ پوری نہیں اتری
منور رانا
میں اسی مٹی سے اٹھا تھا بگولے کی طرح
اور پھر اک دن اسی مٹی میں مٹی مل گئی
منور رانا
میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں
صرف اک کاغذ پہ لکھا لفظ ماں رہنے دیا
منور رانا
میں راہ عشق کے ہر پیچ و خم سے واقف ہوں
یہ راستہ مرے گھر سے نکل کے جاتا ہے
منور رانا
مرے بچوں میں ساری عادتیں موجود ہیں میری
تو پھر ان بد نصیبوں کو نہ کیوں اردو زباں آئی
منور رانا
مری ہتھیلی پہ ہونٹوں سے ایسی مہر لگا
کہ عمر بھر کے لیے میں بھی سرخ رو ہو جاؤں
منور رانا
مٹی کا بدن کر دیا مٹی کے حوالے
مٹی کو کہیں تاج محل میں نہیں رکھا
منور رانا

