کچھ اس انداز سے صیاد نے آزاد کیا
جو چلے چھٹ کے قفس سے وہ گرفتار چلے
مبارک عظیم آبادی
کیا کہیں کیا کیا کیا تیری نگاہوں نے سلوک
دل میں آئیں دل میں ٹھہریں دل میں پیکاں ہو گئیں
مبارک عظیم آبادی
لے چلا پھر مجھے دل یار دل آزار کے پاس
اب کے چھوڑ آؤں گا ظالم کو ستم گار کے پاس
مبارک عظیم آبادی
میں تو ہر ہر خم گیسو کی تلاشی لوں گا
کہ مرا دل ہے ترے گیسوئے خم دار کے پاس
مبارک عظیم آبادی
مسجد کی سر راہ بنا ڈال نہ زاہد
اس روک سے ہونے کے نہیں کوئے بتاں بند
مبارک عظیم آبادی
محراب عبادت خم ابرو ہے بتوں کا
کر بیٹھے ہیں کعبے کو مسلمان فراموش
مبارک عظیم آبادی
مہربانی چارہ سازوں کی بڑھی
جب بڑھا درماں تو بیماری بڑھی
مبارک عظیم آبادی

