EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کچھ اس انداز سے صیاد نے آزاد کیا
جو چلے چھٹ کے قفس سے وہ گرفتار چلے

مبارک عظیم آبادی




کیا کہیں کیا کیا کیا تیری نگاہوں نے سلوک
دل میں آئیں دل میں ٹھہریں دل میں پیکاں ہو گئیں

مبارک عظیم آبادی




لے چلا پھر مجھے دل یار دل آزار کے پاس
اب کے چھوڑ آؤں گا ظالم کو ستم گار کے پاس

مبارک عظیم آبادی




میں تو ہر ہر خم گیسو کی تلاشی لوں گا
کہ مرا دل ہے ترے گیسوئے خم دار کے پاس

مبارک عظیم آبادی




مسجد کی سر راہ بنا ڈال نہ زاہد
اس روک سے ہونے کے نہیں کوئے بتاں بند

مبارک عظیم آبادی




محراب عبادت خم ابرو ہے بتوں کا
کر بیٹھے ہیں کعبے کو مسلمان فراموش

مبارک عظیم آبادی




مہربانی چارہ سازوں کی بڑھی
جب بڑھا درماں تو بیماری بڑھی

مبارک عظیم آبادی