سمجھائیں کس طرح دل ناکردہ کار کو
یہ دوستی سمجھتا ہے دشمن کے پیار کو
مبارک عظیم آبادی
شکست توبہ کی تمہید ہے تری توبہ
زباں پہ توبہ مبارکؔ نگاہ ساغر پر
مبارک عظیم آبادی
توبہ کی رندوں میں گنجائش کہاں
جب یہ آئے گی نکالی جائے گی
مبارک عظیم آبادی
تیری بخشش کے بھروسے پہ خطائیں کی ہیں
تیری رحمت کے سہارے نے گنہ گار کیا
مبارک عظیم آبادی
تری ادا کی قسم ہے تری ادا کے سوا
پسند اور کسی کی ہمیں ادا نہ ہوئی
مبارک عظیم آبادی
تم بھول گئے مجھ کو یوں یاد دلاتا ہوں
جو آہ نکلتی ہے وہ یاد دہانی ہے
مبارک عظیم آبادی
تم کو سمجھائے مبارکؔ کوئی کیوں کر افسوس
تم تو رونے لگے یار اور بھی سمجھانے سے
مبارک عظیم آبادی

