پھر ملے ہم ان سے پھر یاری بڑھی
اور الجھا دل گرفتاری بڑھی
مہربانی چارہ سازوں کی بڑھی
جب بڑھا درماں تو بیماری بڑھی
ہجر کی گھڑیاں کٹھن ہوتی گئیں
دن کے نالے رات کی زاری بڑھی
پھر تصور میں کسی کے نیند اڑی
پھر وہی راتوں کی بے داری بڑھی
سختیاں راہ محبت کی نہ پوچھ
ہر قدم اک تازہ دشواری بڑھی
خیر ساقی کی سلامت مے کدہ
جس قدر پی اتنی ہشیاری بڑھی
دور دورے ہیں مبارکؔ جام کے
انتہا کی اپنی مے خواری بڑھی
غزل
پھر ملے ہم ان سے پھر یاری بڑھی
مبارک عظیم آبادی