EN हिंदी
لے چلا پھر مجھے دل یار دل آزار کے پاس | شیح شیری
le chala phir mujhe dil yar-e-dil-azar ke pas

غزل

لے چلا پھر مجھے دل یار دل آزار کے پاس

مبارک عظیم آبادی

;

لے چلا پھر مجھے دل یار دل آزار کے پاس
اب کے چھوڑ آؤں گا ظالم کو ستم گار کے پاس

میں تو ہر ہر خم گیسو کی تلاشی لوں گا
کہ مرا دل ہے ترے گیسوئے خم دار کے پاس

تو تو احسان جتاتی ہوئی آتی ہے صبا
یوں بھی آتا ہے کوئی مرغ گرفتار کے پاس